Skip to main content

جوہوا اچھا ہوا

Jo Huwa Acha Huwaاٹلی کا ایک بادشاہ حکومت اور دولت کے گھمنڈ میں غریبوں سے بات کرنا بھی براجانتا تھا اس لئے اکثر لوگ اسے ناپسند کرتے تھے۔ایک دن یہ شکاری میں کسی جانور کے پیچھے گھوڑا ڈالے انی دور نکل گیا کہ نوکر چاکر سب بچھڑ گئے اور بادشادہ تنہا رہ گیا۔
اتنے میں ایک کسان نے بادشاہ کے گھوڑے کی رکاب پکڑلی۔اس کی شکل ہوبہوبادشاہ سے ملتی تھی۔فرق یہ تھا کہ اس کی پوشاک اور حالت غریب جیسی تھی۔ اس نے بادشاہ سے کہا کہ میں تین دن سے حضور کی ڈیوٹی پر بھوکا پیاسا چلاآرہا ہوں مگر کوئی میری فریاد نہیں سنتا۔
بادشاہ غریب کو میلے کچیلے کپڑوں میں دیکھ کر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا کہ میں ذلیل آدمیوں سے بات نہیں کرتا۔غریب کسان پھر بھی اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔یہاں تک کہ بادشاہ ایک تالاب پر پہنچ کر گھوڑے سے اترا۔
اس نے باگ ڈور ایک درخت سے انکائی تاج اور کپڑے اتار کر ایک طرف رکھے اورنہانے کو تالاب میں اترگیا۔
یہ تالاب ایسے نشیب میں تھا کہ نہانے والے کو اوپر کا آدمی نظر نہ آتا تھا جب بادشاہ تالاب میں اُتر چکا تو غریب کسان نے اپنے کپڑے اُتار دیئے۔بادشاہ کے کپڑے پہن کرتاج سر پر رکھ لیا اور بادشاہ کے گھوڑے پر سوار ہوکر رفوچکر ہوگیا۔
کسان بادشاہ تھوڑی ہی دور گیا تھاکہ اسے شاہی نوکر چاکر مل گئے جنہوں نے اسے بادشاہ سمجھ کر ادب سے سلام کیا اور یہ بھی بے جھجھک شاہی محل میں جاپہنچا۔اصل بادشاہ تالاب سے نہا کر باہر نکلاتو کپڑے تاج اور گھوڑا کچھ بھی موجود نہ تھا۔
بہت گھبرایا مگر اب کیا ہوسکتاتھا؟نا چار غریب کسان کے میلے کپڑے پہنے اور کئی دن تک فاقے کرنے اور بھٹکنے کے بعد شہر پہنچا۔مگر اب اس کی یہ حالت ہوئی کہ جس سے بات کرتا کوئی منہ نہ لگاتا اور جب یہ کہتا کہ میں تمہارا بادشاہ ہوں تو لوگ اسے پاگل سمجھ کر ہنس دیتے۔
دوتین ہفتے اسی طرح گزرگئے۔ جب اس پاگل کا قصہ بادشاہ کی ماں نے سنا تو اسے بلوا کر اس کے سینے پر تل کا نشان دیکھا پھر اس کی سچائی کی تصدیق کی۔
کسان نے اصلی بادشاہ کی یہ حالت دیکھ کر کہاکیا تم وہی شخص ہوجودولت اور حکومت کے گھمنڈ میں غریبوں کی فریادنہ سنتے تھے؟اسی کی سزادینے کو میں نے یہ سب کیا۔
اگر تم وہ گھمنڈ چھوڑ کر رحم وانصاف کا اقرار کرو تو میں تمہارا تاج وتخت واپس کرنے کو تیار ہوں ورنہ ابھی قتل کا حکم بھی دے سکتا ہوں۔یہ سن کر بادشاہ نے عاجزی اور ندامت کے ساتھ اپنی غلطی تسلیم کی اور کسان اسے تاج وتخت واپس دے کر گھر چلاگیا۔جس کے بعد بادشاہ نے اپنی اصلاح کی اور چند دنوں میں اس کی نیک نامی کا ڈنکا دور دور تک بجنے لگا

Comments

Popular posts from this blog

سرحدوں کی بندش کے باعث رمضان المبارک میں ملک میں زرعی اجناس کی قلت کا خدشہ

لاہور: کورونا وائرس کے سبب ایران اور افغانستان کی سرحدیں بند ہونے سے زرعی اجناس کی امپورٹ بند جانے سے رمضان المبارک کے دوران پنجاب میں کجھور،لیموں،انار،انگور اور سیب کی شدید قلت ہو گی۔ تفصیلات کے مطابق رمضان المبارک میں کجھور سمیت کئی پھل افطار کا لازمی جزو ہوتے ہیںہے جس وجہ سے ان اشیاءکی طلب کئی گنا بڑھ جاتی ہے. اس صورت حال میں ان اشیاء کو ایران اور افغانستان سے درآمد کیا جاتا ہے۔ ایران سے کجھور، سیب، انگور اور لیموں جب کہ افغانستان سے انار آتا ہے۔ کورونا وائرس کے سبب پاکستان نے ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحد بند کر دی ہے اور امپورٹ ایکسپورٹ رکی ہوئی ہے۔ مقامی تاجروں کے پاس موجود ایرانی کجھور کا جمع شدہ ذخیرہ ختم ہو رہا ہے جس وجہ سے قیمت بڑھ رہی ہے ایک ہفتہ قبل تک 6 سے7 ہزار روپے فی من فروخت ہونے والی ایرانی کجھور کی منڈی میں قیمت 10 ہزار روپے سے تجاوز کر گئی ہے اور اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ رمضان المبارک کے دوران لیموں کی بھی شدید قلت ہوگی کیونکہ پنجاب میں محدود مقدار میں لیموں پیدا ہوتا ہے اس کے اسٹاکس بھی 90 فیصد ختم ہو چکے ہیں جب کہ سندھ کے دیسی لیموں کی فصل جون

Siah Raat Horror Stories In Urdu Free 2020

رونا وائرس کی آڑ میں مسلمان نسل کشی کی تیاری، بھارتی مصنفہ نے مودی کا چہرہ بے نقاب کردیا

نئی دہلی: بھارتی مصنفہ ارون دتی رائے نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی حکومت کرونا وائرس کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کے جزبات کو بھڑکا رہی ہے تاکہ مسلم نسل کشی شروع ہو۔ جرمن خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ارون دتی رائے کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نے مسلمانوں پر کرونا کا الزام عائد کر کے مذہبی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کی جس کے بعد بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نیا محاذ کھڑا ہوگیا ہے۔ ارون دتی رائے نے کہا کہ بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت کی حکمت عملی پر دنیا کو نظر رکھنی چاہیے کیونکہ ملک میں مسلمانوں کے لیے صورت حال نسل کشی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بھارتی مصنفہ کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں کووِڈ 19 کا مرض کسی حقیقی بحران کی وجہ نہیں بنا،اصل بحران تو نفرت اور بھوک کا ہے، یہاں حکمرانوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بحران پیدا کیا، اس سے قبل شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کا دہلی میں بھی قتل عام کیا گیا تھا۔ ’’اس وقت بھی کرونا وائرس کی وبا کی آڑ میں مودی  حکومت نوجوان طلبہ کو گرفتار کرنے میں لگی ہے،وکلاء، سینیئر مدیران، سیاسی اور سماجی کارکنوں اور دانشور