
اماں ہر وقت اس فکر میں رہتی تھیں کہ کہیں بلی میرے بستر پر نہ سو جائے اور برتنوں میں منہ نہ ڈالے کیونکہ بلی سب گھر والوں سے مانوس تھی اور ان کے بستر میں گھس کر بیٹھ جاتی تھی․․․․․اماں بہت صفائی پسند اور سخت مزاج خاتون تھیں اور وہ بلی کو گھر سے نکالنے کی فکر میں رہتی تھیں چونکہ وہ اپنے پوتے سے بہت پیار کرتی تھی اس وجہ سے اُسے برداشت کررہی تھیں ۔
”ایک بلی کو تو برداشت کیا تھا اب یہ دو اور مصیبتیں بھی نازل ہو گئیں اب تو میں انہیں ایک دن کے لئے بھی گھر میں برداشت نہیں کروں گی۔
اماں نے بلی کو اتنا مارا کہ وہ زمین پر لیٹ کر تڑپنے لگی اور اماں کی طرف اُداس نظروں سے گھورنے لگی اُس کی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی۔اماں نے دونوں بچوں کو ایک شاپنگ بیگ میں ڈالا اور اپنے گھر سے تھوڑے فاصلے پر بنے ہوئے ایک خالی گھر میں چھوڑ آئیں جو ابھی زیر تعمیر تھا اور اس میں کوئی نہیں رہتا تھا۔
بلی کو سخت بخار تھا اسے اپنے بچوں کا کچھ ہوش نہیں تھاجب دو تین دن کے بعد اس کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو اُسے اپنے بچوں کی یادستائی تووہ سارے گھر میں بچوں کو تلاش کرنے لگی۔باہر گلی میں جاکر بچوں کو ڈھونڈا لیکن بچے کہیں نہ ملے۔
بلی کو بچوں کی بہت یا دستائی تو وہ زور زور سے میاؤں میاؤں کرنے لگی۔اماں نے ایک بار پھر ڈنڈااٹھایا اور بلی کو مارنا شروع کر دیا‘سفیان نے جب یہ دیکھا تو اس سے برداشت نہیں ہوا اُس نے دادی کے ہاتھ سے ڈنڈا چھین لیا اور کہنے لگا۔
”دادوکچھ تو خدا کا خوف کریں ایک تو اس کے بچوں کو اس سے جدا کر دیا دوسرا اسے بھی یہاں نہیں رہنے دیتیں۔“اماں نے اُسے ڈانٹا اور غصے سے کہا۔
”دفعہ ہو جاؤ اور جاکر اپنے کمرے میں سو جاؤ۔“سفیان نے بلی کو اٹھایا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔
”یہ بلی کو مارنے کی سزا ہے۔“سفیاں کی امی کہنے لگیں۔”چھوڑو ان باتوں کو پہلے ڈاکٹر کو بلاؤ۔“جب اماں نے پوتے کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہیں شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ رونے لگیں اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگیں۔
سفیان بلی کے بچے کو گھر لے آیا جیسے ہی بلی نے اپنے بچے کو دیکھا تو زور زور سے میاؤں میاؤں کرنے لگی اور اپنے بچے کو چومنے لگی اور اپنی محبت کا اظہار کرنے لگی۔اماں نے دل سے توبہ کرلی تھی کہ اللہ میاں مجھے معاف کردے تو میں کبھی کسی کے بچوں کوا س کی ماں سے جدا نہیں کروں گی۔
Comments
Post a Comment