ارمن ندی بالکل خشک پڑی تھی۔ میں نے اس میں گھس کر ٹارچ کی مدد سے ادھر ادھر دیکھا۔شیر کے پنجوں کے تازہ نشانات ندی میں گزرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہمارے آنے سے کچھ دیر بیشتر درندہ ندی پار کر کے کنارے پر گیا ہے۔
”سرکار، وہ پانایتی کی پہاڑی پر گیا ہوگا۔“بیرا نے کہا۔”مجھے اچھی طرح معلوم ہے،وہ وہیں آرام کرتا ہے۔“
پانایتی کا ٹیلا ندی سے کوئی ایک میل دور تھا۔ ہم پنجوں کے نشانات دیکھتےہوئے اس طرف چل پڑے۔راہ میں بانس کے درختوں کا ایک گھنا جھنڈ پڑتا تھا۔ جب ہم اس میں سے گزررہے تھے تو ہاتھی کے ہانپنے کی آواز سنائی دی۔ہاتھی یہ آواز خوراک ہضم کرتے وقت نکالتا ہے ا ور اگر اس حالت میں اسے چھیڑا جائے یا تنگ کیا جائے تو غضب ناک ہو کر حملہ کر دیتا ہے۔ہم نے وہ راستہ ترک کیا اور ایک لمبا چکر کاٹ کر پانایتی کے جنگل تک پہنچ گئے۔جنگل کے اس حصے میں درخت کم، جھاڑیوں اور بڑے بڑے پتھر زیادہ تھے،اونچے اونچے ٹیلوں کے اندر کہیں غار بنے ہوئے دکھائی دیے۔زمین چونکہ خشک اور سخت تھی، اس لیے پنجوں کے نشان موجود نہ تھے یا ہمیں نظر نہ آئے۔
”شیر انہی غاروں میں سے کسی میں رہتا ہے۔“بیرا نے بتایا۔
”لیکن شیر کا ہونا ضروری نہیں۔“میں نے کہا۔
”سورج غروب ہوجانے کے بعد درندے شکار کی تلاش میں نکل جاتے ہیں اور ابھی ابھی ہم نے اس کے پنجوں کے نشان ندی میں دیکھے ہیں۔“
”سرکار،یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ندی والا شیر کوئی اور ہو۔“پیرا نے کہا اور میں چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔میں نے ادھر ادھر دیکھا۔بائیں ہاتھ پچیس تیس فٹ دور ایک ٹنڈ منڈ درخت نظر آیا جس پر چڑھنا کچھ مشکل نہ تھا۔ بیرا میرے حکم کا منتظر کھڑا تھا۔میں نے درخت پر چڑھ کر ٹارچ کی روشنی چاروں طرف پھینکی کوئی جانور نظر نہ آیا۔جنگل کے اس حصے میں ہو کا عالم تھا۔ میں نے درخت سے اتر کر ٹارچ بیرا کو دی اور کہا۔
”جاﺅ شیر کا کھوج لگا کر مجھے خبر دو۔“
بیرا نے کانپتے ہاتھوں سے ٹارچ پکڑی اور اس انداز سے غاروں کی طرف چلا جیسے پھانسی کے تختے پر چڑھ رہا ہو۔کچھ دور چل کر وہ رکا اور مڑ کر مجھ سے کہنے لگا۔
”جناب، آپ بھی میرے ساتھ ساتھ آجائیں۔شیر اگر قریب ہوا تو مجھے پھاڑ کھائے گا۔“
”بکواس بند کرو۔“ میں نے گرج کر کہا۔”تم اب تک چھوٹے چھوٹے ہرن ہی مارتے رہے ہو، اب ذرا شیر کا بھی سامنا کرو۔تمہاری بندوق اسی شرط پر واپس ملے گی۔“
مرتا کیا نہ کرتا، بے چارہ لڑ کھڑاتے قدموں سے آگے بڑھا۔ میں اس کی حالت کا اندازہ کرکے دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو میں اس کے تعاقب میں چل دیا۔ ابھی چند قدم ہی گیا تھا کہ سامنے سے شیر کے غرانے کی آواز اور پھر بیرا پجاری کی لمبی چیخ سن کر میرے ہوش اڑ گئے۔ میں نے جیب سے دوسری ٹارچ نکال کر روشن کی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ بیرا وحشیوں کی طرح اندھا دھند بھاگتا اور گرتا پڑتا میری طرف لپکا چلا آرہا ہے۔ وہ میرے قریب آکر دھم سے زمین پر گر گیا اور بری طرح ہانپنے لگا۔ میں چپ چاپ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ اس کا جسم پسینے میں تر تھا۔ کہا:
”سر....سرکار....شیر بھی یہیں ہے۔“اس نے کہا۔”وہ سامنے بڑے ٹیلے پر کچھ کھارہا ہے۔“
”چلو، مجھے دکھاﺅ،“میں نے اسے ہاتھ پکڑ کے اٹھایا۔”گھبراﺅ مت بیرا، جب تک میں تمہارے ساتھ ہوں شیر کچھ نقصان نہ پہنچائے گا۔“
ہم ٹارچ کی روشن میں ڈبے پاﺅں آگے بڑھنے لگے۔ٹارچ بیرا کے پاس تھی۔میں نے دیکھا اس کا ہاتھ کپکپا رہا ہے۔بہت سے چٹانی پتھر پھلانگنے کے بعد ایک جگہ رکا اور چپکے سے بولا۔
”سرکار، آپ نے شیر کی بوپائی۔“
میں نے دو تین دفعہ نتھنے سکوڑے،اپنی قوت شامہ ذرا تیز کی مگر شیر کی بو محسوس نہ ہوئی۔ میں نے نفی میں سر ہلا کر بیرا کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ چند قدم چل کر وہ پھر رک گیا اور کہنے لگا۔
”اب سونگھیے، یقیناً شیر کی بوناک میں آئے گی۔“
چند لمحے بعد میں نے محسوس کیا۔واقعی شیر کے جسم کی بدبو فضا میں پھیلی ہوئی ہے۔شیر کی موجودگی کا علم اس کے غرانے کی آواز سن کر ہو چکا تھا۔ اب صرف یہ پتا لگانا تھا کہ وہ ہے کدھر۔بیرا نے ایک اونچی چٹان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”اس کے پیچھے ہے۔“
میں نے بیرا کو ایک بڑے پتھر کے پیچھے چھپ جانے کی ہدایت کی اور خودٹارچ لے کر آگے بڑھا۔ شیر یقیناً اسی چٹان کے عقب میں بیٹھا تھا کیونکہ میں اس کے سانس لینے کی آواز بخوبی سن رہا تھا۔ تھوڑا سا چکر کاٹ کر میں چٹان کے اوپر پہنچ گیا اور رائفل کی نالی پر فٹ کی ہوئی ٹارچ سے ادھر ادھر روشنی پھینکی۔ یکایاک ایک گوشے میں شیر کی چمکتی ہوئی زرد آنکھیں نظر آئیں۔وہ غراتا ہوا کھڑا ہو گیا۔ میں نے اس کی کھوپڑی کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ گولی شیر کی آنکھوں کے عین درمیان لگی اور وہ منہ کے بل پتھروں پر گر گیا۔ میں نے ایک فائر اور کیا۔ چند لمحوں تک اس کا جسم تڑپتا اور تھر تھر اتا رہا۔ گردن اور کھوپڑی خون میں لت پت ہو گئی۔ میں حیران تھا کہ اس نے مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کیوں نہ کی۔حالانکہ میرا اور اس کا درمیان فاصلہ آٹھ فٹ سے زیادہ نہ تھا۔ وہ چاہتا تو ایک ہی جست میں مجھے دبوچ سکتا تھا۔ لاش کو قریب سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ وہ عمر رسیدہ تھا اور اب اس کے قویٰ میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ جوان شیر کی طرح یک لخت جست کرکے مجھ پر آن پڑتا۔
مرا ہوا شیر دیکھ کر بیرا کی جان میں جان آئی۔ ہم دونوں خوش خوش بنگلے کی طرف لوٹے راستے میں بیرا نے کہا۔
”سرکار، اب وعدے کے مطابق میری بندوق واپس کر دیجئے۔“
”بھئی بات یہ ہے کہ مجھے اس شکار میں قطعاً لطف نہیں آیا۔“میں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔”مجھے ایسا درندہ چاہیے جو تمہاری طرح چالاک، مکار اور دھوکے باز ہو اور وہ مجھے جنگل میں کئی کئی دن ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دے اور جس کی دھن میں میری راتیں مچانوں میں جاگ جاگ کر گزریں۔“
بیرا یہ سن کر چپ ہو گیا اور اس نے تمام راستے دوبارہ بندوق کا مطالبہ نہ کیا۔ اگلے روز چند مزدوروں کے ہمراہ بیرا جنگل سے شیر کی لاش اٹھا لایا۔سر سے لے کر دم تک اس کی لمبائی ساڑھے نوفٹ اور جسم کے مقابلے میں کھوپڑی خاصی بڑی تھی۔(جاری ہے)
Comments
Post a Comment