Skip to main content

بھگوان شیوا کی خاطر خود کو سلاخوں پر لٹکانے والا تہوار

تنبیہ: بعض قارئین کے لیے چبھانے اور چیرنے والی تصاویر پریشان کن ہو سکتی ہیں۔
انڈیا کی مشرقی ریاست مغربی بنگال میں کورونا کی وجہ سے فصل کی کٹائی سے قبل منائے جانے والے ایک قدیمی تہوار کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ یہ ایسا تہوار ہوتا ہے، جس میں لوگ خود کو لوہے کی سلاخوں اور مچھلی پکڑنے والے کانٹے کی طرح کی چیزوں سے خود میں سوراخ کر کے لٹکاتے ہیں یا خود کو اذیت دیتے ہیں۔
لیکن گذشتہ سال اپریل کے مہینے میں اس تقریب میں شرکت کرنے والی ہماری رپورٹر سحر زاند بتاتی ہیں کہ بہت سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہندو کے بھگوان شوا کے لیے اس طرح کی عقیدت اگر نہ دکھائی جائے تو فصل خراب ہو جائے گی  تقریباً ایک سال قبل اپریل کے وسط کی ایک صبح دریائے گنگا کے کنارے ایک بڑے سے درخت کی چھاؤں میں چند نوجوان حلقہ بنائے بیٹھے ہیں۔ انھوں نے گہرے سرخ رنگ کا لباس پہن رکھا ہے اور ان کے ہاتھوں میں بہت ہی احتیاط سے تیار کی ہوئی لوہے کی سلاخیں ہیں، جنھیں وہ برچھی کہتے جو کہ تقریباً دو فیٹ لمبی ہیں۔
جتنی تیز سلاخیں ہوں گی اتنا ہی کم زخمی ہونے کا خطرہ ہوگا۔
یہ تقریب دن چڑھے ہوگی اور اس کے لیے وہ خود کو تیار کیے بیٹھے ہیں۔ اس گروپ میں سب سے زیادہ عمر کے سندوس ہیں جو کہ 26 سال کے ہیں اور گروپ کے وہ واحد شخص ہیں، جنھوں نے اس سے قبل جسم میں چھید یا سوراخ کرنے والی تقریب میں شرکت کر رکھی ہے۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ گذشتہ برسوں کے دوران انھوں نے اپنے ہونٹ، کان، بازو، سینے، شکم اور پشت میں چھید کروا رکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تکلیف دہ ہوتا ہے 'لیکن درد عارضی ہے جبکہ اس کا انعام ہمیشہ رہنے والا ہے۔ ہم سب کو اپنے انعام کے لیے ایک قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔'
جو انعام وہ چاہتے ہیں وہ اچھی فصل ہے 

سال کا سب سے بڑا جشن

مغربی بنگال کے کرشن دیوپور گاؤں میں فصل سے قبل کا تہوار گجن بنگالی کیلنڈر کے خاتمے کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ سال کا سب سے بڑا جشن ہوتا ہے۔
اس میں شرکت ہی کسانوں کے لیے ہندو بھگوان شیو یا شیوا کے لیے ان کی عقیدت کا مظہر ہے۔ ان کے خیال میں بھگوان شیو ہی ان کی فصل کے لیے مفید موسم لانے پر قدرت رکھتے ہیں۔
سندوس نے مجھے بتایا کہ 'جب ہم رسم ادا کرنا شروع کرتے ہیں تو بھگوان شیو ہمارے اندر سرایت کر جاتے ہیں اور ہمیں ان کی ماورائے انسانی طاقت اور ہمت ملتی ہے۔'
ان کی بات کو پوری توجہ سے سننے والے راہل کہتے ہیں کہ وہ دس سال کی عمر سے ہی اپنے والدین کو اس میں شرکت کرنے کی اجازت کے لیے منا رہے ہیں۔ اب وہ 15 سال کے ہیں اور متواتر کئی خراب فصلوں کے بعد ان کے والدین نے ہچکچاتے ہوئے انھیں اس رسم کی ادائیگی کی اجازت دے دی ہے۔
راہول کہتے ہیں کہ 'شیو ہم سے خوش نہیں ہیں۔ اس لیے وہ ہم سب کو سزا دے رہے ہیں۔' اور وہاں موجود سب لوگ ان کی حمایت میں سر ہلاتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں: 'اس لیے خود کو اور اپنے اہل خانہ کو ان کے غصے سے بچانے کے لیے یہ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ ان کے لیے اپنی عقیدت کو ثابت کریں۔'
جب لوہے کی سلاخیں تیز ہو جاتی ہیں تو ایک ایک کرکے سب 'مقدس' دریائے گنگا میں اپنے جسم اور روح کو پاک کرنے کے لیے غسل کرتے ہیں۔ 22 سال سے گجن میں شرکت کرنے والے اجے کا ایمان متزلزل
گذشتہ چھ برسوں کے دوران 22 سالہ اجے نے گجن کی تقریب میں شرکت کی ہے لیکن اس بار اجے کا ایمان اس تہوار سے متعلق کمزور پڑ گیا ہے۔
وہ شک میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں 'جب ہمیں کوئی نتیجہ نظر نہیں آ رہا ہے تو میں اپنے جسم کو تکلیف کیوں دوں؟'
وہ مجھے اپنے خاندانی کھیتوں میں لے جاتے ہیں۔
میرے سامنے خراب سبزیوں کی کیاریاں پھیلی ہوئی ہیں اور ان کھیتوں کے کنارے پر آم کے پیڑ ہیں، مکھیوں سے خراب پھل لگے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: 'بعض اوقات جب بارش کی ضرورت ہوتی ہے تو بارش بالکل نہیں ہوتی ہے اور فصل خشک سالی کا شکار ہو جاتی ہے اور بعض اوقات اس قدر شدید بارش ہوتی ہے کہ ہمارے کھیت سیلاب زدہ ہو جاتے ہیں اور فصل تباہ ہو جاتی ہے۔'
انھوں نے بتایا کہ گرمی کی لہر بھی شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔
اجے بتاتے ہیں کہ اصل مسئلہ موسمیاتی تبدیلی ہے نہ کہ بھگوان شیو کا غصہ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کلکتہ کے ایک کالج سے ان کی بنگالی ادب میں تعلیم پوری ہو جائے گی تو وہ ملازمت کی تلاش کریں گ

تہوار کیسے منایا جاتا ہے؟

دن چڑھنے کے بعد تقریب شروع ہونے والی ہے۔
سینکڑوں افراد نے ایک فٹبال کے میدان کے برابر حصے کو بھر دیا ہے۔ وہاں رنگ برنگی ساڑھیوں میں خواتین نظرآ رہی ہیں جبکہ پرجوش بچے ادھر ادھر دوڑتے نظر آ رہے ہیں، مقامی کھانوں اور مصالحوں کی خوشبو اڑ رہی ہے جبکہ لاؤڈ سپیکر سے تیز موسیقی کی آواز ابھر رہی ہے۔
سندوس اور راہول میدان کے بیچ میں تقریباً 100 اپنے جیسے نوجوانوں کے ساتھ ہیں، جنھوں نے اپنی کمر کے گرد سرخ کپڑے کے علاوہ کچھ نہیں پہن رکھا ہے۔ وہ نعرہ لگاتے ہیں کہ 'شیو سب سے طاقتور بھگوان ہیں' اور 'ان کے تمام بھکتوں کو ان کی پوجا (عبادت) میں شامل ہونا چاہیے۔'
وہ کئی گھنٹوں سے اس منتر کا ورد کر رہے ہیں۔
یہ پورے پراسیس کا اہم حصہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک بے خودی کی کیفیت میں لانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ انھیں اس تقریب کے دن برت (روزہ) رکھنا ہوتا ہے لیکن وہ شراب پی سکتے ہیں اور بھانگ کھا سکتے ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ سب انجری یعنی زخم کے خطرے کو کم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
جب راہل پجاری کے گرد رقص کرتا ہے جو کہ جلد ہی ان کے جسموں میں سلاخیں ڈالنے والے ہیں تو اس کی آنکھیں پھیلی ہوئی ہیں لیکن وہ سیدھے میری طرف دیکھتا ہے۔
جیسے ہی سلاخوں سے چھیدنے کا عمل شروع ہوتا ہے، بھیڑ سخت ہوتی جاتی ہے اور خواتین واویلا مچانے لگتی ہیں۔
میں از خود دوسری طرف مڑ جاتا ہوں۔ جب واپس مڑ کر دیکھتا ہوں تو یہ پاتا ہوں کہ بعض عقیدت مند اب بھی شیو کے منتر کا ورد کر رہے ہیں اور ان کے جسم یعنی گال، کان، ہونٹ، ناک، سینے، بازو اور پشت میں پہلے ہی کئی سلاخیں بھونکی جا چکی ہیں  پجاری سندوس کی تیز کی ہوئی سلاخیں لیتے ہیں اور اس میں چکنائی لگانے کے لیے اس پر کیلے کا پھل ملتے ہیں۔ منتر کا جاپ کرتے ہوئے وہ سندوس کے گال کو کھینچتے ہیں اور تیزی کے ساتھ اس کے گال میں سلاخ ڈال دیتے ہیں۔ وہ ایک طرف سے ڈالتے ہیں جو کہ سوراخ کرتا ہوا دوسری طرف نکلتا ہے۔
سندوس کی تیوری چڑھ جاتی ہے اور اس کا پورا جسم کانپنے لگتاہے۔ پجاری اسی گال میں مزید دو سلاخیں ڈالتے ہیں اور سب کو وہیں چبھا ہوا چھوڑ دیتے ہیں۔
اب راہول کی باری ہے۔
وہ آگے قدم بڑھاتا ہے۔ اس نے سختی سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ پجاری اس کے کان کے لٹکے ہوئے حصے سے شروع کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کے نچلے ہونٹ پر مختلف سلاخیں ڈالتا ہے اور اسی طرح اس کے اوپری ہونٹ پر سلاخیں ڈالتا ہے۔
آخر میں پجاری راہل کے سینے میں دو زخم لگاتا ہے اور اس میں سے ہر ایک ایک انچ گہرا ہوتا ہے اور سلاخ اس میں داخل کرکے چھوڑ دی جاتی ہے۔
مجھے اس کی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو کا ایک قطرہ نظر آیا جو اس کے درد کا مظہر تھا۔
وہ شیو کا منتر پڑھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کے الفاظ گڈمڈ ہو جاتے ہیں کیونکہ اس کے چہرے پر جو سلاخیں گڑی ہوئی ہیں وہ اس کے چہرے کی حرکت میں مانع ہیں۔
ایک دوسرا عقیدت مند راہل کو اپنے کندھے پر اٹھا لیتا ہے اور اسے حلقے کے گرد دکھانے لگتا ہے اور وہاں موجود لوگ اسے دیکھتے ہیں۔
میری حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ اس پورے عمل کے دوران خون کا ایک قطرہ نہیں گرتا ہے۔
لیکن ابھی تہوار ختم نہیں ہوا ہے  
چرک پوجا تہوار کا بھیانک منظر
اب عقیدت مند 'چرک' پوجا کی تیاری کر رہے ہیں جو کہ اس تقریب کا آخری اور سب سے بھیانک حصہ ہوتا ہے۔
تہوار کے خاتمے کے تحت خود کو تکلیف دینے کے عمل کو بلند تر سطح پر لے جایا جاتا ہے۔ چند تجربہ کار عقیدت میں خود کو ایک چکر جھولے سے لٹکاتے ہیں، جس میں ان کی پشت کی جلد میں صرف دو لوہے کی مڑی ہوئی کانٹے نما سلاخیں ہوتی ہیں، جس سے وہ خود کو لٹکاتے ہیں۔
اس میں پہلی باری سمن کی ہے۔
وہ 34 سال کے ہیں اور وہ 12 سال کی عمر سے ہر سال گجن کی تقریب میں شرکت کرتے رہے ہیں  
ابھی بھی سمن کی پشت میں کانٹا لگا ہوا ہے، لیکن وہ مجھ سے کہتا ہے کہ 'جتنی دیر تک میں وہاں لٹکا رہا میں روحانی طور پر بھگوان کے ربط میں تھا۔ مجھے ایسا لگا کہ میں بھگوان اور ساری انسانوں کے درمیان ایک پل ہوں۔'
میں نے پوچھا کہ اگر گجن کو روک دیا جائے تو اس کے خیال میں کیا ہوگا۔
سمن نے بغیر کسی تردد کے جواب دیا کہ 'یہ دنیا کا خاتمہ ہوگا۔ بھگوان شیو کا قہر ہم سب کو برباد کر دے گا۔'
لیکن رواں سال جب وہاں کے لوگ گجن کی تیاری کر رہے تھے تو انڈیا کی حکومت نے کووڈ-19 کے سبب لاک ڈاؤن نافذ کر دیا۔
رواں سال گجن کی تقریب نہیں ہو سکی۔ شاید ہزاروں سال کے اندر ایسا پہلی بار ہوا کہ گجن کا تہوار نہیں منایا گیا    

Comments

Popular posts from this blog

سرحدوں کی بندش کے باعث رمضان المبارک میں ملک میں زرعی اجناس کی قلت کا خدشہ

لاہور: کورونا وائرس کے سبب ایران اور افغانستان کی سرحدیں بند ہونے سے زرعی اجناس کی امپورٹ بند جانے سے رمضان المبارک کے دوران پنجاب میں کجھور،لیموں،انار،انگور اور سیب کی شدید قلت ہو گی۔ تفصیلات کے مطابق رمضان المبارک میں کجھور سمیت کئی پھل افطار کا لازمی جزو ہوتے ہیںہے جس وجہ سے ان اشیاءکی طلب کئی گنا بڑھ جاتی ہے. اس صورت حال میں ان اشیاء کو ایران اور افغانستان سے درآمد کیا جاتا ہے۔ ایران سے کجھور، سیب، انگور اور لیموں جب کہ افغانستان سے انار آتا ہے۔ کورونا وائرس کے سبب پاکستان نے ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحد بند کر دی ہے اور امپورٹ ایکسپورٹ رکی ہوئی ہے۔ مقامی تاجروں کے پاس موجود ایرانی کجھور کا جمع شدہ ذخیرہ ختم ہو رہا ہے جس وجہ سے قیمت بڑھ رہی ہے ایک ہفتہ قبل تک 6 سے7 ہزار روپے فی من فروخت ہونے والی ایرانی کجھور کی منڈی میں قیمت 10 ہزار روپے سے تجاوز کر گئی ہے اور اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ رمضان المبارک کے دوران لیموں کی بھی شدید قلت ہوگی کیونکہ پنجاب میں محدود مقدار میں لیموں پیدا ہوتا ہے اس کے اسٹاکس بھی 90 فیصد ختم ہو چکے ہیں جب کہ سندھ کے دیسی لیموں کی فصل جون

Siah Raat Horror Stories In Urdu Free 2020

رونا وائرس کی آڑ میں مسلمان نسل کشی کی تیاری، بھارتی مصنفہ نے مودی کا چہرہ بے نقاب کردیا

نئی دہلی: بھارتی مصنفہ ارون دتی رائے نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی حکومت کرونا وائرس کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کے جزبات کو بھڑکا رہی ہے تاکہ مسلم نسل کشی شروع ہو۔ جرمن خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ارون دتی رائے کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت نے مسلمانوں پر کرونا کا الزام عائد کر کے مذہبی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کی جس کے بعد بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نیا محاذ کھڑا ہوگیا ہے۔ ارون دتی رائے نے کہا کہ بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت کی حکمت عملی پر دنیا کو نظر رکھنی چاہیے کیونکہ ملک میں مسلمانوں کے لیے صورت حال نسل کشی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بھارتی مصنفہ کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں کووِڈ 19 کا مرض کسی حقیقی بحران کی وجہ نہیں بنا،اصل بحران تو نفرت اور بھوک کا ہے، یہاں حکمرانوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بحران پیدا کیا، اس سے قبل شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کا دہلی میں بھی قتل عام کیا گیا تھا۔ ’’اس وقت بھی کرونا وائرس کی وبا کی آڑ میں مودی  حکومت نوجوان طلبہ کو گرفتار کرنے میں لگی ہے،وکلاء، سینیئر مدیران، سیاسی اور سماجی کارکنوں اور دانشور